لیگ آف پارلیمنٹرینز فار القدس اینڈ فلسطین کے صدر، جناب حمید بن عبداللہ الاحمر نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر جاری نسل کشی کی جنگ کے خلاف عرب، اسلامی اور بین الاقوامی مؤقف کو فوری طور پر متحد کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی شدید تنقید کی کہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی ان جرائم پر ناقابل قبول شراکت داری کے مترادف ہے۔
انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کی پارلیمانی یونین (پی یو آئی سی) کی 19ویں کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، جس میں اسلامی ممالک کے پارلیمانی رہنماؤں اور ارکانِ پارلیمان نے بڑی تعداد میں شرکت کی، جناب حمید بن عبداللہ الاحمر نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ایک متحد اور منظم اسلامی کوشش کا تقاضا کرتا ہے—ایسی کوشش جو محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کی شکل اختیار کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ "ہم خاموش تماشائی نہیں بن سکتے جبکہ فلسطینی عوام کو بدترین جارحیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی فورمز پر ہماری آوازیں زیادہ بلند اور مؤثر ہونی چاہییں۔"
الاحمر نے ایک عملی تجویز کا اعلان کیا: اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک کی طرف سے ایک اسلامی پارلیمانی وفد تشکیل دیا جائے جو امریکی کانگریس کا دورہ کرے۔ اس دورے کا مقصد یہ ہوگا کہ غزہ میں جاری نسل کشی پر اسلامی پارلیمانوں کا مؤقف واضح طور پر پیش کیا جائے، امریکہ کو اسلامی دنیا کے ساتھ اپنے مشترکہ مفادات کی یاد دہانی کروائی جائے، اور یہ پیغام دیا جائے کہ اسرائیل کی جنگ میں امریکہ کی مسلسل شراکت داری اور غیر مشروط حمایت، امریکہ اور اسلامی ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
انہوں نے غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے ایک مؤثر نظام قائم کرنے اور ریاستِ فلسطین کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کروانے کے لیے فوری اقدامات پر زور دیا، اور کہا کہ یہ کانفرنس اسلامی مؤقف کو متحد کرنے کا ایک اہم موقع ہے۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کو اسلامی امت کی اولین ترجیح بنائے رکھنا ضروری ہے، اور فلسطینی عوام کے حقوق کا دفاع ایک اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے جس سے پیچھے نہیں ہٹا جا سکتا۔
Copyright ©2025